Noor Mahal Bahawalpur
پاکستان کے شہر بہاولپور کے قلب میں واقع نور محل اس خطے کے ثقافتی اور تعمیراتی ورثےکا ایک عظیم شہکار ہے ۔ یہ شاندار محل شاہی دبدبہ کی علامت ہے جس نے 19ویں صدی میں بہاولپور کی ریاست کو نمایاں کیا تھا۔ نور محل، جس کا مطلب ہے “روشنی کا محل” اطالوی، ہندوستانی اور اسلامی طرز تعمیر کا ایک دلفریب امتزاج ہے، جو ایک منفرد انوکھے طرز تعمیر کی وجہ سے سیاحوں کو اپنی طرف کھینچتا ہے . جو سیاحوں اور تاریخ کے شائقین کو یکساں طور پر تاریخ کے گمشدہ اوراق دکھاتا ہے
سابقہ ریاست بہاولپور کے نوابوں کے پاس بہت دولت تھی انہوں نے اپنے علاقے کی ترقی کے لیے دل کھول کر اسے استعمال کیا اور ساتھ ساتھ اپنے شایان شان محلات تعمیر کروائے ریاست تو نہیں رہی مگر اس کی کہانی سنانے کے لیے نوابوں کی تعمیر کردہ عمارتیں ضرور موجود ہیں یہ ایک شاندار کہانی ہے اور سننے سے زیادہ دیکھنے سے تعلق رکھتی ہے جب آ پ بہاولپور کا رخ کریں تو اپ کو صرف دیکھنے والی آ نکھ چاہیے اور کچھ نہیں
وکٹوریا ہاسپٹل لائبریری میوزیم ڈرنک سٹیڈیم ایجرٹن کالج جیسی تاریخی عمارتوں سے ہوتے ہوئے اگر آ پ نور محل پہنچیں تو دیکھ سکتے ہیں کہ ریاست کے دور میں بننے والی سہولیات خطے کے اعتبار سے اپنے وقت میں کافی جدید تھیں اور پھر وسیع و عریض سبزہ زاروں میں کھڑی یہ عمارت مغربی اور اسلامی طرز تعمیر کا ایک خوبصورت امتزاج ہے اس کی آ ب و تاب اور طمطراق دور ہی سے اپ کو اپنی طرف کھینچتا ہے
اپنے پہلوؤں میں نور محل سبزے کی چادر بچھائے ہوئے ہے اس کے عین سامنے دائرے کی شکل میں بنے لان میں بیٹھے ہوئے ہلکے سرخ اور سفید رنگ کی عمارت کو دیکھتے آ پ اس کے سحر میں گرفتار ہونے کے خطرے سے دوچار ہو سکتے ہیں تقریبا ڈیڑھ سو سال پرانا یہ محل ان بہت سے محلات میں سے ایک ہے جو 19ویں صدی کے اواخر میں تعمیر ہوئے. باقی محلات شاید اس سے بھی زیادہ خوبصورت ہیں مگر نور محل میں کچھ الگ ضرور ہے
اب ہم بات کریں گے کہ نور محل کس نے اور کس لیے بنوایا اس سوال کے جواب میں بہت سی کہانیاں اورقصے مشہور ہیں سب سے زیادہ جو ہمیں سننے کو ملا وہ کچھ یوں تھا کہ نور محل نواب صادق محمد خان عباسی چہارم نے سن 1872 میں تعمیر کروایا انہوں نے یہ محل اپنی بیگم کے لیے بنوایا تھا جو تین سال کے عرصے میں مکمل ہوا یہی وجہ ہے کہ یہ انہی کے نام سے منسوب ہے تاہم ان کی بیگم نے اس محل میں صرف ایک رات قیام کیا کیونکہ انہیں یہ بات پسند نہیں آئی کہ محل کےقرب میں ہی ایک قبرستان موجود تھا نور محل کے حوالے سے یہی کہانی اپ کو انٹرنیٹ پر بھی بے شمار جگہ ملے گی

مگر کیا یہ حقیقت ہے سابق ریاست بہاولپور کے اخری امیر نواب سر صادق محمد خان پنجم کے نواسے صاحبزادہ قمر الزمان عباسی نے ایک انٹرویو میں بی بی سی سے بات کرتے ہوئے بتایا کہ سوائے سن تعمیر کے اس کہانی میں کچھ بھی درست نہیں .لوگ ڈائیلاگ بازی کرتے ہیں اپنی طرف سے کہانیاں بنا لیتے ہیں کہ بیگم کا نام نور جہاں تھا لیکن ایسا کچھ نہیں ان کا کہنا تھا کہ کوئی بیگم کبھی یہاں نہیں رہی اور یہ محل کسی بھی بیگم کے لیے نہ تو تعمیر ہوا اور نہ ہی اس کے نام میں موجود نور کسی بیگم کے نام سے منسوب ہے اس زمانے میں کسی بیگم کا نام لینا بھی برا سمجھا جاتا تھا
پروفیسر ڈاکٹر محمد طاہر بہاولپور کے تاریخی صادق ایجرٹن کالج کے شعبہ تاریخ کے سابق صدر ہیں اور سابق ریاست کی تاریخ پر گہری نظر رکھتے ہیں ان کا استدلال ہے کہ نور محل کی تعمیر کو کسی بیگم سے منسوب کرنا غلط ہے اس زمانے میں اس علاقے میں کھلے عام بیگم کا نام لینا بھی معیوب سمجھا جاتا تھا. وہ کہتے تھے نواب صاحب کی گھر والی کا نام لینے کی ممانعت تھی یہ محل کسی بیگم کے نام پر نہیں ہے پاکستان بننے کے بعد نور محل کچھ عرصہ اوقاف کے پاس رہا اور پھر پاکستانی فوج کو لیز پر دے دیا گیا جس نے بعد ازاں اس کو خرید لیا. ان دنوں یہ فوج کے زیر انتظام ہے اس کی عمارت میں ریاست کی تاریخ اور خصوصا نواب سر صادق محمد خان پنجم کے حوالے سے چیزیں رکھی گئی ہیں، آ پ ایک معمولی سے رقم کا ٹکٹ خرید کر اس کی سیر کر سکتے ہیں.
نور محال کا تاریخی پس منظر
نور محل 1872 میں بہاولپور کے پانچویں حکمران نواب صادق محمد خان چہارم نے اپنی اہلیہ کے لیے تحفے کے طور پر تعمیر کروایا تھا۔ محل کی تعمیر صرف تین سالوں میں مکمل ہوئی تھی، جس میں غیر معمولی کاریگری اور باریک بینی سے توجہ دی گئی تھی۔ نواب، جو یورپی فن تعمیر سے گہرا متاثر تھا، نے مشہور معمار ہیرا سنگھ کو محل کے ڈیزائن کا کام سونپا۔

فن تعمیر
نور محل کا فن تعمیر مغربی اور مشرقی طرزوں کا ایک دلچسپ امتزاج ہے۔ محل کا بیرونی حصہ پیچیدہ اطالوی سنگ مرمر کے کام پر مشتمل ہے جبکہ اس کے اندرونی حصے اسلامی اور ہندوستانی ڈیزائن کی عکاسی کرتے ہیں۔ اگواڑا کورنتھیائی کالموں، بیلسٹریڈز، اور محرابوں کے شاندار امتزاج سے مزین ہے، جس سے ایک عظیم الشان اور شاندار ڈھانچہ بنتا ہے۔ سڈول ترتیب ا سے محل کے شاہانہ ماحول پر زور دیا گیا ہے۔
یہ محل 44,600 مربع فٹ سے زیادہ کے رقبے پر پھیلا ہوا ہے اور متعدد ہالز، کمروں اور صحنوں پر مشتمل ہے۔ اندرونی حصے شاندار فانوس، پیچیدہ فریسکوز اور آرائشی سامان سے مزین ہیں، جو بہاولپور کے شاہی خاندان کے پرتعیش طرز زندگی کی عکاسی کرتے ہیں۔ نور محل کا منفرد فن تعمیر اسے پاکستان کے آرکیٹیکچرل لینڈ سکیپ میں ایک جواہر کے طور پر نمایاں کرتا ہے۔
نور محل کی قابل ذکر جگہیں
مرکزی صحن، اطالوی فن تعمیر سے متاثر ایک دلکش جگہ ہے جو سرسبز و شاداب، چشموں اور سنگ مرمر کے مجسموں سے مزین ہے۔ یہ محل کا دل سمجھا جاتا ہےاور ایک پرسکون اور خوبصورت ماحول فراہم کرتا ہے۔
عظیم الشان دربار ہال اپنی اونچی چھت اور شاندار فانوس کے ساتھ سرکاری تقریبات اور استقبالیہ کے لیے جگہ کے طور پر کام کرتا تھا۔ پیچیدہ فریسکوز اور تفصیلی آئینے کا کام دیواروں کو سجاتا ہے اور ایک دلکش ماحول پیدا کرتا ہے۔
نور محل مختلف رہائشی کمروں اور سویٹس پر مشتمل ہے جہاں کبھی شاہی خاندان کے لوگ رہتے تھے۔ کمرے آرام اور خوشحالی کا امتزاج ہیں، جس میں آرائشی سامان، فارسی قالین اور روایتی نمونے ہیں۔
سیاحت
برسوں کے دوران نور محل نے اپنی تاریخی اہمیت کو برقرار رکھنے کے لیے بحالی کی کوششیں کی ہیں۔ آج، یہ ایک میوزیم کے طور پر عوام کے لیے کھلا ہے، جو زائرین کو بہاولپور کے حکمرانوں کے شاندار طرز زندگی کی ایک جھلک پیش کرتا ہے۔ محل کے اچھی طرح سے رکھے ہوئے باغات اور صحن اسے ثقافتی تقریبات، شادیوں اور تہواروں کے لیے ایک مقبول مقام بناتے ہیں۔
Noor Mahal Bahawalpur
بہاولپور میں نور محل محل محض ایک تاریخی عمارت نہیں ہے۔ یہ ایک گزرے ہوئے دور کی شان و شوکت کا زندہ ثبوت ہے۔ اس کا دلکش فن تعمیر، بھرپور تاریخ، اور ثقافتی اہمیت اسے پاکستان کے ورثے کی تلاش میں دلچسپی رکھنے والوں کے لیے ایک لازمی مقام بناتی ہے۔ جب زائرین اس کے ہالوں اور صحنوں میں چہل قدمی کرتے ہیں، تو انہیں بہاولپور کے شاہی خاندان کے شاہانہ طرز زندگی کے بارے میں بصیرت حاصل ہوتی ہے۔ نور محل پاکستان کے آرکیٹیکچرل تاج میں ایک زیور کی حیثیت رکھتا ہے، جو مقامی لوگوں اور سیاحوں دونوں کو اس کی شاہانہ شان و شوکت کا نظارہکرنے کی دعوت دیتا ہے۔