14 best collections of noshi gilani poetry

The best collections of noshi gilani poetry

محبتیں جب شمار کرنا تو سازشیں بھی شمار کرنا نوشی گیلانی (1964 میں بہاولپور پاکستان میں پیدا ہوئیں) بین الاقوامی شہرت کی ایک لیجنڈری اردو شاعرہ اور بہاولپور یونیورسٹی، پنجاب پاکستان کی سابقہ ماہر تعلیم ہیں۔

وہ پاکستان کی اردو کی صف اول کی شاعروں میں سے ایک ہیں جن کی شاعری کے پانچ مجموعے کامیابی سے شائع ہو چکے ہیں

2008 میں ان  کی شاعری کا انگریزی میں ترجمہ کیا گیا اوران  کی نظمیں شاعری ترجمہ مرکز کے عالمی شعراء کے دورے کے ساتھ، برطانیہ میں پڑھی گئیں۔

انہوں نے پاکستان نیشنل کونسل آف دی آرٹس (PNCA) کے زیر اہتمام لوک گلوکار پٹھانے خان کو خراج تحسین پیش کیا۔

وہ 1995 میں سان فرانسسکو چلی گئیں۔ آسٹریلوی نژاد اردو شاعر سعید خان سے شادی کرنے کے بعد وہ 2008 میں آسٹریلیا میں آباد ہو گئیں۔ یہ جوڑا سڈنی میں مقیم ہے۔۔ بتایا گیا کہ ان کی والدہ محترمہ سرور گیلانی صاحبہ جو اردو اور فارسی زبانوں اور ادب کی پروفیسر تھیں جو کہ بہاولپور، پاکستان میں انتقال کر گئیں۔

noshi gilani poetry

noshi gilani poetry

جو میرے حصے میں آئی ہیں وہ اذیتیں بھی شمار کرنا

جلائے رکھوں گی صبح تک میں تمہارے رستوں میں اپنی آنکھیں

مگر کہیں ضبط ٹوٹ جائے تو بارشیں بھی شمار کرنا

جو حرف لوح وفا پہ لکھے ہوئے ہیں ان کو بھی دیکھ لینا

جو رائیگاں ہو گئیں وہ ساری عبارتیں بھی شمار کرنا

یہ سردیوں کا اداس موسم کہ دھڑکنیں برف ہو گئی ہیں

جب ان کی یخ بستگی پرکھنا تمازتیں بھی شمار کرنا

تم اپنی مجبوریوں کے قصے ضرور لکھنا وضاحتوں سے

جو میری آنکھوں میں جل بجھی ہیں وہ خواہشیں بھی شمار کرنا

کوئی مجھ کو میرا  بھرپور  سراپا  لا  دے

میرے بازو، میری آنکھیں، میرا چہرہ لا دے

ایسا دریا جو کسی اور سمندر میں  گرے

اس سے بہتر ہے کہ مجھ کو میرا صحرا لا دے

کچھ نہیں چاہئے تجھ سے اے میریِ عمرِ رواں

میرا بچپن، میرے جگنو، میری گڑیا لا  دے

جس کی آنکھیں مجھے اندر سے بھی پڑھ سکتی ہو

کوئی چہرہ تو میرے شہر میں ایسا لا  دے

کشتئ جاں تو بھنور میں ہے کئی برسوں سے

اے  خدا  اب  تو  ڈبو  دے  یا  کنارا  لا دے

آنکھیں بھی وھی ھیں ، دریچہ بھی وھی ھے

اور سوچ کے آنگن میں اُترتا بھی وھی ھے

جس نے میرے جذبوں کی صداقت کو نہ جانا

اب میری رفاقت کو ترستا بھی وھی ھے۔

جو کچھ بھی کہا تھا میری تنہائی نے تجھ سے

اِس شہر کی دیوار پہ لکھا بھی وھی ھے

وہ جس نے دیے مجھ کو محبت کے خزانے

بادل کی طرح آنکھ سے برستا بھی وھی   ھے

noshi gilani poetry images

ابو جی

زمین آپ سے خالی ہوئ ہے ابو جی !

مَیں کیسے اس پہ گھروندہ بنا کے بیٹھی رہوں

شبوں میں خواب کی خوشبو بسا کے سوئ رہوں

بدن پہ سانس کا پتھر اُٹھا کے پھرتی رہوں

یہ اپنی عمر کی گڑیا سجا کے ہنستی رہوں

زمین آپ سے خالی ہوئ ہے ابو جی !

مِرے لئے تو زمیں آپ

آسماں تھے آپ

مِرے یقینِ محبت کی داستاں تھے آپ

کبھی غروب نہ ہو،

ایسی کہکشاں تھے آپ

مِری خموش ریاضت کے رازداں تھے آپ

مِری تمام دعاوٴں کا آستاں تھے آپ

مَیں جس میں مان سے رہتی تھی ، وہ جہاں تھے آپ

زمین آپ سے خالی ہوئ ہے ابو جی !

مَیں کیسے اس پہ گھروندہ بنا کے بیٹھی رہوں !

بے شک نہ میرے ساتھ سفر اختیار کر

اے میرے بدگمان میرا اعتبار کر

وہ خود تو تتلیوں کو لیے گھومتا رہا

اور مُجھ کو خط میں لکھتا رہا، انتظار کر

اب اُن کے قافلے تو بُہت دور جا چُکے

جِن کی طلب میں آئے تھے ، صحرا گزار کر

میں نے تو تیرے ہجر کا دُکھ جھیل ہی لیا

اب تُو بھی تو خود کو واقفِ رہِ انتظار کر

کب ہو سکی ہے انکی سمندر سے دوستی

مٹی کے اِن گھروندوں پہ کم انحصار کر

فرصت مِلے تو دیکھ مِرے دِل کے آئینے

آنکھوں سے اپنی کاغذی پردے اُتار کر.

دل تھا کہ خوش خیال تجھے دیکھ کر ہُوا

یہ شہر بے مثال تجھے دیکھ کر ہوا

اپنے خلاف شہر کے اندھے ہُجوم میں

دل کو بہت ملال تجھے دیکھ کر ہوا

طولِ شبِ فراق تری خیر ہو کہ دل

آمادۂ وصال تجھے دیکھ کر ہوا

یہ ہم ہی جانتے ہیں جدائی کے موڑ پر

اِس دل کا جو بھی حال تجھے دیکھ کر ہوا

آئی نہ تھی کبھی مرے لفظوں میں روشنی

اور مجھ سے یہ کمال تجھے دیکھ کر ہوا

بچھڑے تو جیسے ذہن معطل سا ہو گیا

شہرِ سُخن بحال تجھے دیکھ کر ہوا

پھر لوگ آ گئے مرا ماضی کُریدنے

پھر مجھ سے اک سوال تجھے دیکھ کر ہو

‏تِری گفتار پہ حیرت، تِرے کردار پہ خاک

‏قاضئ عصر تِرے عدل کے دربار پہ خاک

‏جس  میں سچائ کو مصلوب  کیا  جاتا ہے

‏شہرِ انصاف  تِرے کُوچہ و بازار  پہ خاک

‏ظلم کے باب میں اک رسم نئی  لکھنے  کو‏

تُو نےقاتل کوجو پہنائ ہے، دستار پہ خاک

noshi gilani poetry

مام دُکھ ہے

ہمیں خبر ہے تمام دُکھ ہے

یہ آس دکھ ہے نراس دُکھ ہے

اُداسیوں کا لباس دُکھ ہے

یہ تِشنگی جو عذاب بن کر ٹھہر گئی ہے

بدن کے بوسیدہ ساحلوں پر

تو اس کا عہدِ دوام دُکھ ہے

یہ شور کرتی ہَوا کا سارا خرام دُکھ ہے

ہمیں خبر ہے تمام دُکھ ہے

جو تُم محبت نِبھا رہے ہو

تو اِس محبت کا نام دُکھ ہے

یہ وصل موسم جو اک مسلسل مغالطہ ہے

سو اس رفاقت کا نام دُکھ ہے

اور ایسی وحشت نما فضا میں

خموش رہنا بھی اک سزا ہے

مگر کسی سے کلام دُکھ ہے

ہمیں خبر ہے تمام دُکھ ہے

 یہ دل بھُلاتا نہیں ہے محبتیں اُس کی

پڑی ہُوئی تھیں مُجھے کِتنی عادتیں اُس کی

یہ میرا سارا سَفر اُس کی خوشبوؤں میں کٹا

مجھے تو راہ دکھاتی تھیں چاہتیں اُس کی

گِھری ہُوئی ہوں میں چہروں کی بھیڑ میں لیکن

کہیں نظر نہیں آتیں شباہتیں اُس کی

مَیں دُور ہونےلگی ہوں تو ایسا لگتا ہے

کہ چھاؤں جیسی تھیں مجھ پر رفاقتیں اُس کی

یہ کِس گلی میں یہ کِس شہر میں نِکل آئے

کہاں پہ رہ گئیں لوگو صداقتیں اُس کی

میں بارشوں میں جُدا ہو گئی ہوں اُس سے مگر

یہ میرا دل، مِری سانسیں امانتیں اُس کی

اداس شام کی ایک نظم

وصال رت کی یہ پہلی دستک ہی سرزنش ہے

کہ ہجر موسم نے رستے رستے سفر کا آغاز کر دیا ہے

تمہارے ہاتھوں کا لمس جب بھی مری وفا کی ہتھیلیوں پر حنا بنے گا

تو سوچ لوں گی

رفاقتوں کا سنہرا سورج غروب کے

امتحان میں ہے

ہمارے باغوں سے گر کبھی تتلیوں کی خوشبو گزر نہ پائے تو یہ نہ کہنا

کہ تتلیوں نے گلاب رستے بدل لیے ہیں

اگر کوئی شام یوں بھی آئے کہ جس میں ہم تم لگیں پرائے

تو جان لینا

کہ شام بے بس تھی شب کی تاریکیوں کے ہاتھوں

تمہاری خواہش کی مٹھیاں بے دھیانیوں میں کبھی کھلیں تو یقین کرنا

کہ میری چاہت کے جگنوؤں نے

تمہارے ہاتھوں کے لمسِ تازہ کی خواہشوں میں

بڑے گھنیرے اندھیرے کاٹے

مگر یہ خدشے، یہ وسوسے تو تکلفاً ہیں

جو بے ارادہ سفر پہ نکلیں

تو یہ تو ہوتا ہے یہ تو ہوگا

ہم اپنے جذبوں کو منجمد رائیگانیوں کے سپرد کر کے

یہ سوچ لیں گے

کہ ہجر موسم تو وصل کی پہلی شام سے ہی

سفر کا آغاز کر چکا تھا

خوف

‏مجھے خوف ہے

‏وہ نباہ کے کسی مرحلے پہ

‏یہ آ کے کہہ دے کہ اَب نہیں

‏مِرے دل کو تیری طلب نہیں ‏

‏تم بھی کتنے سادہ تھے

‏مَست تھے مسافت میں

‏رزق و عشق میں ڈوبے

‏گیت گا رہے تھے اور

‏رقص کرتے جاتے تھے

‏وادیوں کے شہزادے !

‏یہ نہ جان پائے تُم

‏آہنی پہاڑوں پر برف کا جہنم ہے

noshi gilani poetry images

‏چلو اک اور رقصِ رائگانی دفن کرتے ہیں

‏پہاڑوں میں محبت کی کہانی دفن کرتے ہیں

مِرے سینے پہ اک تعویذ ہے تیری محبت کا

‏چلے آؤ کہ باہم  یہ نشانی دفن کرتے ہیں

‏پہاڑوں پر اترتے برف کے طوفان میں اپنی

‏عذابِ عشق  میں لپٹی جوانی دفن کرتے ہیں

دعائیں بےثمر ہونے لگیں برفاب موسم میں

سو اب جاں سوز اشکوں کی روانی دفن کرتے ہیں

جہاں مُٹھی میں لینا تھاسنہرے خواب کا جگنو

وہاں بےجان ہاتھوں کی کہانی دفن کرتے ہیں

ہمیں تو آسماں کو چُوم کر واپس پلٹنا تھا

مگر اب خواہشوں کی راجدھانی دفن کرتے ہیں

محبتوں میں خسارہ عجیب لگتا ہے

ہمیں دعا کا سہارا عجیب لگتا ہے

شعورِ موسمِ ہجر و وصال رکھتے ہیں

سو عِشق سارے کا سارا عجیب لگتا ہے

کبھی تمہاری طلب بےقرار رکھتی تھی

اور اب تو زکر تمہارا عجیب لگتا ہے

ہمارے دل نے ارادہ تو کر لیا لیکن

ابھی سفر کا ستارہ عجیب لگتا ہے

کبھی چراغ جلائے تھے جس کے پانی پہ

وہ جھیل اور وہ کنارہ عجیب لگتا ہے

1 thought on “14 best collections of noshi gilani poetry”

Leave a Comment