8 best mohsin naqvi poetry in Urdu text with images

Great mohsin naqvi poetry in Urdu text

سفر تنہا نہیں کرتے  اردو زبان کے عظیم شاعر سید محسن نقوی 10 مئی 1947 کو ڈیرہ غازی خان پنجاب  میں پیدا ہوئے۔ ان کے والد، سید چراغ حسین شاہ ایک کاٹھی بنانے والے اور کھانا فروش تھے۔ ان کے والدین نے ان کا نام غلام عباس رکھا جسے بعد میں بدل کر غلام عباس محسن نقوی رکھ دیا۔ نقوی کے چھ بہن بھائی تھے۔انہوں نے گورنمنٹ کالج ملتان سے گریجویشن کیا اور پنجاب یونیورسٹی لاہور سے ماسٹر کی ڈگری حاصل کی۔

mohsin naqvi poetry in urdu text

وہ شاعر اہل بیت کے نام سے مشہور ہوئے۔ کربلا کے بارے میں ان کی شاعری پورے پاکستان میں پڑھی جاتی ہے۔

وہ شیعہ مسلم کمیونٹی کے ایک سرگرم رکن تھے  اور ان کے قتل کی وجہ بھی یہی شمار کی جاتی ہے ۔ انہوں نے “اقبال ثانی” کا خطاب حاصل کیا۔ انہوں نے ڈیرہ غازی خان میں شاعر رفیق خاور جسکانی سے شاعری کی بنیادی تعلیم حاصل کی۔

ان کی شاعری میں الف لیلیٰ قسم کی محبت شامل تھی۔ انہوں نے دنیا کے ان حکمرانوں کے خلاف بھی لکھا جو اپنے لوگوں کی پرواہ نہیں کرتے۔ انہوں نے ایک فلم  بازارِ حسن کے لیے ایک گیت “لہروں کی طرح  تجھے بکھرنے نہیں دیں گے” لکھا  اور گیت نگار کے طور پر  بہترین فلم کا ایوارڈ جیتا۔

انہیں 15 جنوری 1996 کو لاہور کے مین بازار میں قتل کر دیا گیا۔ قاتلوں نے انہیں 40 گولیاں ماریں اور اس وقت ان کی عمر 49 سال تھی۔  ان کی میت کو ان کے آبائی گھر بلاک 45 ڈیرہ غازی خان منتقل کیا گیا جہاں انہیں ہزاروں سوگواروں کی موجودگی میں سپرد خاک کر دیا گیا۔ محسن نقوی کی قبر کربلا شریف ڈیرہ غازی خان میں کتبے پر لکھے ان کے آخری الفاظ  یہ تھے،

لے زندگی کا خمس علی کے غلام سے

اے  موت آ ضرور مگر احترام سے

عاشق ہون اگرذرا  بھی اذیت ہوئی

شکوہ کروں گا تیرا میں اپنے امام  سے

ذیل میں سید محسن نقوی مرحوم کی متخب شاعری کا انتخاب پیش کیا جا رہا ہے .امید ہے کہ ان کےچاھنے والوں کو یہ کوشش پسند آئے گی

mohsin naqvi poetry urdu

mohsin naqvi poetry in urdu

mohsin naqvi poetry in urdu text

سنو ایسا نہیں کرتے

جسے شفاف رکھنا ہو

اُسے میلا نہیں کرتے

تیری آنکھیں اِجازت دیں

تو ہم کیا نہیں کرتے

بہت اُجڑے ہوئے گھر پر

بہت سوچا نہیں کرتے

سفر جس کا مقدر ہو

اُسے روکا نہیں کرتے

جو مِل کے کھو جائے

اُسے رسوا نہیں کرتے

چلو تم راز ہو اپنا

تمہیں افشا نہیں کرتے

یہ پَر کیسے ہیں

کہیں سایہ نہیں کرتے

کبھی ہنسنے سے ڈرتے ہو

کبھی رویا نہیں کرتے

جو دُھن ہو گر گزرنے کی

تو پھر سوچا نہیں کرتے

تیری آنکھوں کو پڑھتے ہیں

تجھے دیکھا نہیں کرتے

سحر سے پوچھ لو محسنٓ

کہ ہم سویا نہیں کرتے

رہینِ خوف نہ وقفِ ہراس رہتا ہے

مگر یہ دل ہے کہ اکثر اُداس رہتا ہے

یہ سانولی سی فضائیں یہ بے چراغ نگر !

یہیں کہیں وہ ستارہ شناس رہتا ہے

اُسی کو اوڑھ کے سوتی ہے رات خود پہ مگر

وہ چاندنی کی طرح بے لباس رہتا ہے

میں کیا پڑھوں کوئی چہرہ کہ میری آنکھوں میں

تیرے بدن کا کوئی اقتباس رہتا ہے

کہاں بھلائیے اُس کو کہ وہ بچھڑ کے سدا

خیال بن کے محیط حواس رہتا ہے

بھٹک بھٹک کے اسے ڈھونڈتے پھرو محسن

وہ درمیان یقین و قیاس رہتا ہے

معرکہ اب کے ہوا بھی تو پھر ایسا ہوگا

تیرے دریا پہ مری پیاس کا پہرہ ہوگا

اس کی آنکھیں ترے چہرے پہ بہت بولتی ہیں

اس نے پلکوں سے ترا جسم تراشا ہوگا

کتنے جگنو اسی خواہش میں مرے ساتھ چلے

کوئی رستہ ترے گھر کو بھی تو جاتا ہوگا

میں بھی اپنے کو بھلائے ہوئے پھرتا ہوں بہت

آئنہ اس نے بھی کچھ روز نہ دیکھا ہوگا

رات جل تھل مری آنکھوں میں اتر آیا تھا

صورت ابر کوئی ٹوٹ کے برسا ہوگا

یہ مسیحائی اسے بھول گئی ہے محسنؔ

یا پھر ایسا ہے مرا زخم ہی گہرا ہوگا

تجھے رسوائی کا ڈر ہے نہ آیا کر

بچھڑ جانا ہے بہتر ہے نہ آیا کر

کسی شاداب قریے میں بسا خود کو

یہ دل اجڑا ہوا گھر ہے نہ آیا کر

میرا دُکھ اک دن تجھ کو بھی ڈبو دیگا

بُہت گہرا سمندر ہے نہ آیا کر

گزر جا آئینے جیسا بدن لے کر

یہاں ہر آنکھ پتھر ہے نہ آیا کر

گزرتے ابر کی بھیگی ہوئی بخشش

زمین صدیوں سے بنجر ہے نہ آیا کر

پلٹ جا اجنبی وھموں کے جنگل سے

یہ پر اسرار منظر ہے نہ آیا کر

بکھرتی ریت کیا ڈھانپے گی سر تیرا

وہ خود بوسیدہ چادر ہے نہ آیا کر

خوشی کے رت میں محسن کو منا لینا

یہ فصل دیدہ تر ہے.نہ آیا کر

mohsin naqvi poetry urdu

بھول جانا بھی اسے یاد بھی کرتے رہنا

اچھا لگتا ہے اسی دھن میں بکھرتے رہنا

ہجر والوں سے بڑی دیر سے سیکھا ہے ہم نے

زندہ رہنے کے لئے جاں سے گزرتے رہنا

کیا کہوں کیوں میری نیندوں میں‌ خلل ڈلتا ہے

چاند کے عکس کا پانی میں اترتے رہنا

میں اگر ٹوٹ بھی جاؤں تو پھر آئینہ ہوں

تم میرے بعد بہر طور سنورتے رہنا

گھر میں رہنا ہے تو بکھرے ہوئے سائے چن کر

زخم دیوار و بام کے بھرتے رہنا

شام کو ڈوبتے سورج کی ہے عادت محسنؔ

صبح ہوتے ہی میرے ساتھ ابھرتے رہنا

محبتوں میں ہوس کے اسیر ہم بھی نہیں

 غلط نہ جان کہ اتنے حقیر ہم بھی نہیں

نہیں ہو تم بھی قیامت کی تُندوتیز ہوا

 کسی کے نقشِ قدم کی لکیر ہم بھی نہیں

ہماری ڈوبتی نبضوں سے زندگی تو نہ مانگ

 سخی تو ہیں مگر اتنے امیر ہم بھی نہیں

کرم کی بھیک نہ دے، اپنا تخت بخت سنبھال

 ضرورتوں کا خُدا تُو ہےتو فقیر ہم بھی نہیں

ہمیں بُجھا دے، ہماری اَنا کو قتل نہ کر

 کہ بے ضررہی سہی، بے ضمیر ہم بھی نہیں

Leave a Comment