Type Here to Get Search Results !

اسلامیہ یونیورسٹی اسکینڈل اندر کی کہانی

بسم اللہ الرحمن الرحیم السلام علیکم اسلامیہ یونیورسٹی بہاولپور کا ایک سکینڈل آپ سب کے سامنے ہے اس سکینڈل کو ویڈیو کا سکینڈل کہہ لیجیے اس سکینڈل کو جنسی سکینڈل کہہ لیجیے منشیات کا سکینڈل کہہ لیجیے لیکن ہر اعتبار سے یہ روح کو لرزا دینے والا سکینڈل ہے اس اعتبار سے کہ اس ایک یونیورسٹی میں اس قوم کی  35 ہزار بچیاں تعلیم حاصل کر رہی ہیں اسلامیہ یونیورسٹی بہاولپور کے تقریبا پانچ کیمپسز ہیں۔ تین کیمپسز بہاولپور سٹی کے اندر ایک کیمپس رحیم یار خان میں اور ایک کیمپس بہاول نگر میں ہے اور ان پانچ کیمپسز میں مجموعی طور پر 35 ہزار بچیاں ساؤتھ پنجاب کی اور مختلف علاقوں کی تعلیم حاصل کر رہی ہیں جنہیں ماں باپ بہت اعتماد کے ساتھ بہت مان کے ساتھ یونیورسٹی بھیجتے ہیں بہت حوصلہ کر کے کہ ان کی بچیوں کی عزتیں ان تعلیمی اداروں میں محفوظ رہیں-  لیکن ظاہر ہے ان ماں باپ کے اعتماد کو ٹھیس پہنچی ہے ان ماں باپ کا اعتماد مسخ ہوا ہے اس اعتبار سے کہ اب وہ اپنی بچیوں کے مستقبل کے حوالے سے وہ اپنی بچیوں کی عزتوں کے حوالے سے کافی پریشان ہیں اور ظاہر ہے جب  یہ بھی کہا جا رہا ہے کہ 55 ہزار ویڈیوز اس یونیورسٹی کے چیف سیکیورٹی افیسر کے فون سے برآمد ہوئی ہیں تو ظاہر ہے ہر ماں باپ کے کان کھڑے ہوں گے ہر ماں باپ گھر بیٹھے ہوئے پریشان ہوں گے کہ ان 55 ہزار ویڈیوز میں کہیں ان کی اپنی بیٹی کی ویڈیو تو نہیں ہے کہیں ان کی اپنی عزیزہ کی ویڈیو تو نہیں ہے ا اور ظاہر ہے اس وقت پورے پاکستان میں ایک ہیجانی کیفیت ہے ایک بے چینی کی کیفیت ہے اور سب لوگ اسلامیہ یونیورسٹی بہاولپور کے اس سکینڈل کے بارے میں مزید معلومات حاصل کرنا چاہتے ہیں تو ہم اپ کو زیرو سے ابتدا کرتے ہوئے جو بہت ہی ابتدائی معلومات ہیں وہاں سے اس کہانی کا اغاز کرتے ہوئے اختتام لے کر جائیں گے بہت ذمہ داری کے ساتھ بہت گارنٹی کے ساتھ کہ ایک ایک لفظ اور تمام معلومات اس آرٹیکل میں جو شیئر کی جا رہی ہیں وہ حقائق پر مبنی ہیں


ابتدا یوں ہوئی  کہ کچھ عرصہ پہلے ڈالفن کے ایک اہلکار کو گرفتار کیا گیا بہاولپور میں اور اس اہلکار سے منشیات برامد ہوئی وہ خود بھی منشیات استعمال کرتا تھا اور منشیات کا دھندا بھی کرتا تھا اور آئیس بالخصوص اس سے برآمد کی گئی اور اس پر مقدمہ بھی درج کیا گیا اس کے فون سے مختلف ویڈیوز برامد ہوئی جو سب سے تہلکہ خیز بات تھی اس گرفتاری کی ان ویڈیوز کو جب پولیس نے اینالائز کیا تو اندازہ ہوا کہ ان ویڈیوز میں وفاقی وزیر طارق بشیر چیمہ صاحب کے صاحبزادے ولی داد چیمہ کی ویڈیوز بھی موجود ہیں یہاں سے اس کہانی کا آغاز ہوتا ہے اور یہی وہ پہلو ہے جس پر ہم شاید پہلی بار روشنی ڈال رہے ہیں اس سے اسلامیہ یونیورسٹی بہاولپور کے منشیات سیکس اور ویڈیوزاسکینڈل  کا اغاز ہوتا ہے ڈالفن اہلکار کے موبائل سے ملنے والی ویڈیوز جن میں مختلف پارٹیز تھیں اور ظاہرہے  پارٹیز ایک اگلی حد تک بھی جاتی تھیں ان میں طارق بشیر چیمہ صاحب کے صاحبزادے ولی داد چیمہ کی ویڈیوز بھی موجود تھی پولیس نے ازراہ احترام کہ ظاہر ہے وفاقی وزیر یزمان جو کہ بہاولپور کی تحصیل ہے وہاں سے ایم این اے الیکٹڈ ہے اس سے پہلے تحریک انصاف کے وزیر رہے اب وہ قاف لیگ  کے وزیر ہیں اور طارق بشیر چیمہ صاحب وہاں کی ایک بڑی بھرپور اور باثر شخصیت ہے بہاولپور کی-

سو بہاولپور پولیس نے ان کے بیٹے کی ویڈیوز کو چھپا لیا انہیں منظر عام پر نہیں آنے دیا . صحافیوں سے اس بات کو شیئر نہیں کیا گیا صرف طارق بشیر چیمہ صاحب کے علم میں لایا گیا کہ جناب  آپ کے صاحبزادے کی منشیات استعمال کرتے ہوئے یا منشیات کی پارٹیز میں یا منشیات کے بعد بیڈ رومز کی یہ ویڈیوز پولیس کے ہاتھ لگی ہیں اس ڈولفن اہلکار کو گرفتار کرنے کے بعد طارق بشیر چیمہ نے ایک اچھے والد ہوتے ہوئے ظاہر ہے  جو ایک شخص احسان جٹ جو بنیادی طور پر چیمہ صاحب کے بیٹے ولی داد چیمہ کا رائٹ ہینڈ تھااس کی بہت ساری ویڈیوز اس کی بہت ساری تصویریں ولی داد  چیمہ صاحب کے ساتھ دیکھی جا سکتی ہیں

کے خلاف مقدمات درج کیے گئے  سو اسے اپنے بیٹے سے دور کرنے کے لیے کہ میرے بیٹے کی کمپنی ذرا بہتر ہو طارق چیمہ صاحب نے اپنے اختیارات کا جائز ناجائز استعمال بھرپور انداز میں کیا- سو احسان جٹ چلا گیا سلاخوں کے پیچھے اب چیمہ صاحب نے پولیس سے کہا کہ ھم پر آنچ نہیں آنی چاہیے اس ریکٹ میں اس گروہ میں اس گینگ میں اس مافیا میں جتنے بھی لوگ شامل ہیں ان سب کو اٹھا لیجئے ہر ایک شخص کا موبائل ضبط کر لیجئے ہر ایک شخص سے ویڈیو حاصل کر لے لیکن میرے بیٹے کی  یہ ویڈیوز جو منشیات استعمال کرتے ہوئے ہیں یا جس میں منشیات کی پارٹی ہیں یا منشیات استعمال کرنے کے بعد کی حالت میں ہے وہ ویڈیو سامنے نہیں آنی  چاہیے عوام کے-لہذا پولیس ایکشن میں آئی-جناب طارق بشیر چیمہ صاحب کے احکامات کی روشنی میں جو پہلا شخص پولیس کی گرفت میں ایا وہ ڈائریکٹر فنانس اسلامیہ یونیورسٹی بہاولپور ابوبکر صاحب تھے ابوبکر صاحب کو گرفتار کیا گیا ایک ایس پی ہیں- وہ ایک ریٹائرڈ ایس پی ہیں  ان کا ایک فارم ہاؤس ہے بہاولپور میں وہاں وہ پارٹی کر کے واپس تشریف لا رہے تھے کہ انہیں گرفتار کر لیا گیا اور گرفتار کر کے ہماری اطلاع یہ ہے واللہ عالم بالثواب کہ ان پر آٹھ گرام آئس ڈال دی گئی ظاہر ہے عام طور پر ایسا ہوتا ہے کہ جب آپ  پارٹی سے واپس آ رہے ہوتے تو آپ کے پاس منشیات یا ڈرگز یا شراب نہیں ہوتی جب اپ پارٹی پر جا رہے ہوتے تو اس طرح کی چیزیں ساتھ لے کر جاتے ہیں بہرحال ان پر آٹھ  گرام کا مقدمہ ڈال دیا گیا لیکن یہ بات درست ثابت ہوئی کہ وفاقی وزیر جناب طارق رشید چیمہ صاحب کے صاحبزادے ولی داد چیمہ کی ویڈیوز ڈائریکٹر فنانس اسلامیہ یونیورسٹی بہاولپور کے موبائل فون سے برامد ہو گئیں

سو اانھیں گرفتار کیا گیا اب اگلا ٹارگٹ تھا یعنی جو پولیس کی معلومات تھی اس کے مطابق بہاولپور کی اسلامیہ یونیورسٹی کے چیف سیکیورٹی افیسر میجر ریٹائرڈ اعجاز شاہ جو کہ مرکزی کردار ہیں اس میگا سکینڈل کا اس بھیانک خوفناک اور ہولناک ترین سکینڈل کا اعجاز شاہ نے تقریبا سات سال پہلے اسلامیہ یونیورسٹی کو بطور چیف سیکیورٹی افسرجوائن کیا تھا ان کی گرفتاری کے لیے پولیس نے واقعتا وہ دعوی بھی کر رہے ہیں میجر ریٹائرڈ عجاز شاہ کے ان کے گرد ایک جال بنا گیا پولیس نے حقیقت میں انھیں گرفتار کرنے کے لیے ایک جال بنا-

ایک ایسی خاتون کو گرفتار کیا گیا جو کہ گرل فرینڈ تھی اعجاز شاہ صاحب کی یا اعجاز شاہ صاحب اس کا استحصال کرتے تھے اسے بھی منشیات پر لگا رکھا تھا وہ خود بھی منشیات کی عادی تھی اسے گرفتار کیا گیا اور پھر اسے اس بات پر قائل کیا گیا کہ وہ اعجاز شاہ صاحب کو کسی ایک جگہ پر بلائے تو اسلامیہ یونیورسٹی کی عوامی کالونی میں اس خاتون نے اعجاز شاہ صاحب کو بلایا اعجاز شاہ صاحب ظاہر ہے  اپنی ہوس پرستی کے ہاتھوں مجبور ہو کر عوامی کالونی پہنچے جہاں وہ لڑکی تو نہیں پولیس ان کا انتظار کر رہی تھی اور پولیس نے اعجاز شاہ صاحب کو گرفتار کر لیا اور ان پر بھی تقریبا 10 گرام کا یا اٹھ گرام کا مقدمہ قائم کیا گیا ا کہ تاکہ ان کو پولیس کی حراست میں رکھا جا سکے انہیں عدالت کے سامنے پیش کیا گیا اگلے دن اور ان سے کہا گیا کہ ہم نے ان سے ویڈیوز برامد کرنی ہیں یہ بہت امپورٹنٹ بات ہے یہ نقطہ میں اگے جا کے ایکسپلین کروں گا عدالت سے یہ درخواست کی گئی کہ اعجاز شاہ سے ہم نے ویڈیوز برامد کرنی ہے اور تبھی یہ خبریں بھی میڈیا پرآنا  شروع ہو گئی کہ اعجاز شاہ کے فون سے 5500 ویڈیوز نازیبا  ویڈیوز اخلاق باختہ ویڈیوز برآ مد ہوئی ہیں - یہ بھی ہم اپ کو بتاتے ہیں ہماری اطلاعات یہ ہیں کہ ان میں ایک سے  سے زائد براہ راست اسلامیہ یونیورسٹی بہاولپور کی خواتین کی سیکس ویڈیوز ہیں ان کی جنسی ویڈیوز ہیں اور ان جنسی ویڈیوز کے اندر بچیوں کا جسمانی استحصال ہو رہا ہے اور ظاہر ہے چونکہ منشیات کے نشے میں انھیں کوئی پرواہ نہیں ہے کہ ان کی ریکارڈنگ ہو رہی ہے یا ان کی ریکارڈنگ نہیں کی جا رہی ہے اور اسی صورتحال میں ان کی ریکارڈنگ کی جا رہی ہے اور پھر انہیں اس ویڈیوز پر بلیک بھی بلیک میل بھی کیا جاتا تھا لیکن تقریبا 53 54 سو  کے قریب ویڈیوز پچھلے پانچ برس کی ویڈیوز ہیں جو میجر ریٹائرڈ  شاکرکے فون سے برامد ہوئی ہیں اور وہ ویڈیوز اس کی تفصیل یہ ہے کہ اسلامیہ یونیورسٹی بہاولپور کے پانچوں کیمپسز میں ہزاروں کی تعداد میں گارڈز ہیں اور ہزاروں ہی کی تعداد میں خفیہ گارڈز کی ایک فورس رکھی گئی ہے جنہیں سکریسی افیسر کہا جاتا ہے یہ افیسرز کام یہ کرتے ہیں کہ مختلف کلاس رومز میں بیٹھ کر مختلف  کیفے ٹیریاز کے اندر مختلف ٹیلوں کے پیچھے مختلف مقامات پر یونیورسٹی کے اندر نظر رکھتے ہیں کہ کون سا لڑکا اور لڑکی اپس میں تعلقات کو بڑھاوا دے رہے ہیں پیار محبت کی پینگیں بڑھا رہے ہیں اور پھر مختلف مواقع پر ان کی ویڈیوز ریکارڈ کر کے یا کسی بھی طرح کے اس طرح کے سکینڈل کی ویڈیو ریکارڈ کر کے اپنے چیف سیکیورٹی کے افیسرعجاز  شاہ کو بھجواتے 

اب اصولی پر تو اعجاز شاہ صاحب کا بطور چیف سیکیورٹی افیسر کام یہ تھا کہ اگر کوئی لڑکا لڑکی کسی ٹیلے کے پیچھے بیٹھ کر اور کسی درخت کی اوٹ میں کسی باغیچے میں کسی کیفے یا کی دیوار کے سائے میں بیٹھ کر کوئی پیار محبت کی باتیں کر رہے ہیں یا اس سے تجاوز کر رہے ہیں اور اس کی ویڈیو وہ سیکریسی افیسر ریکارڈ کر لیتا ہے تو اسے اصولی طور پر سٹوڈنٹ افیئرز کے پاس جانا  چاہیے اور تعدیبی کاروائی ہونی چاہیے اس لڑکے اور لڑکی کے خلاف جو قانون اور جو ضابطہ کہتا ہے لیکن اعجاز شاہ صاحب یہ کرتے رہے کہ ان ویڈیوز کو اپنے فون میں محفوظ کرتے رہے اور جہاں انہوں نے ٹھیک سمجھا اس ویڈیو کی بنیاد پر اس لڑکی کو لڑکے کو تو جانے دیا لیکن اس لڑکی کو بلیک میل کرنے لگے اور پھر اہستہ اہستہ ان تمام لڑکیوں کو انہوں نے اپنے منشیات ریکڈ کا منشیات گینگ کا حصہ بنا لیا اپنے پارٹی گینگ کا حصہ بنا لیا وہ پارٹیاں جو اسلامی یونیورسٹی بہاولپور کے باہر مختلف فارم ہاؤسز پر ہوا کرتی تھی سو یہ بہت 53 54 سو  ویڈیوز ہیں جو ان کے فون سے برآ مد ہوئی اور ایک سو  کے قریب ویڈیوز براہ راست خواتین کے جنسی معاملات سے متعلق ہیں اور کچھ ویڈیوز جو ظاہر ہے طارق بشیر چیمہ صاحب کے صاحبزادے ولی داد چیمہ صاحب کی ویڈیوز تھی جنہیں ڈیلیٹ کروانے کے لیے جنہیں منظر عام  سے غائب کرنے کے لیے یہ سارا کھیل رچا گیا تو جناب معاملہ یہ ہے کہ وہ 55 سویڈیوز جو ہیں- ظاہر ہے اس سے ماں باپ بھی پریشانی کا شکار ہو رہے ہیں اس میں ماں باپ بھی بے یقینی کا شکار ہو رہے ہیں- میں نے جس طرح عرض کیا کہ 35 ہزار بچیاں ہیں جو اس وقت اسلامیہ یونیورسٹی بہاولپور کے مختلف کیمپسز میں تعلیم حاصل کر رہی ہیں سب کا کردار مشکوک نہیں قرار دیا جا سکتا سب ہماری بیٹیاں ہیں سب ہماری بہنیں ہیں سب کو یہ حق ہے کہ جنوبی پنجاب جیسے پسماندہ علاقے میں وہ اچھی تعلیم حاصل کریں بہترین ماحول میں تعلیم حاصل کریں سو کوئی بھی ایسا الزام یا کوئی بھی ایسی سویپنگ سٹیٹمنٹ دے کر ان تمام بچیوں کا مستقبل داؤ پر نہیں لگایا جا سکتا اور نہ ہی لگایا جانا چاہیے سو چند درجن ایسی بچیاں ہیں جو منشیات پر لگی بلیک میل ہو کر یا ظاہر ہے اپنی جنسی خواہشات کے ہاتھوں مختلف پارٹیز کا حصہ بنی اور ان کی ویڈیو میجر ریٹائرڈ اعجاز شاہ ابوبکر یا وہ جو ٹرانسپورٹ کا ایک افیسر پکڑا گیا وہ بھی ایک نچلے درجے کا افسر ہے جو کہ ایک پوائنٹ کا ٹرانسپورٹ انچارج ہے اسے گرفتار کیا گیا ان کے فون سے برامد ہوئی ہیں باقی جو جو والدین ہیں جو بہن بھائی ہیں جن جن کی بچیاں یا جن کی بہنیں یا جن کی بیٹیاں اس وقت اسلامی یونیورسٹی میں پڑھ رہی ہیں میرا خیال ہے کہ انہیں پریشان نہیں ہونا چاہیے لیکن الزام  کا یہ معاملہ بلیک میلنگ کا یہ معاملہ صرف اسلامیہ یونیورسٹی بہاولپور تک محدود نہیں ہے  آ پ سب کی نظروں سے شاید وہ گزرا ہوگا کہ ایک بہت باریش اسلامک سٹڈیز کے ہیڈ ڈین آف ارٹس عربک سائنسز کے ہیڈ صلاح الدین صاحب کو  رنگے ہاتھوں پکڑا گیا تھا - انہوں نے اعتراف کیا جس جس طرح کی حرکتیں وہ بچیوں کو نمبر بڑھا نے کے نام پر کیا کرتے تھے اتنی بڑی داڑھی تھی بہت ہی دینی حلیہ رکھا ہوا تھا اور ظاہر دینی سبجیکٹ ہی پڑھاتے تھے اور ڈیرہ اسماعیل خان جیسے علاقے کے اندراقرار الحسن  نے ان کو رنگے  ہاتھوں ویڈیو ثبوتوں کے ساتھ گرفتار کیا تھا انہوں نے پہلے خود تسلیم کیا کہ ان سے غلطی سرزد ہوئی ہے وہ پروگرام ان ریکارڈ موجود ہے اس کے بعد انہوں نے خود اپنا  ریزائن وائس چانسلر کو دیا کہ میں اس قابل نہیں ہوں کہ اس کرسی پر بیٹھوں لیکن سبحان اللہ اس ملک کے قانون کو سلام اور سلیوٹ ہے کہ صلاح الدین صاحب کو بے گناہ قرار دے کر نہ صرف بری کر دیا گیا بلکہ یہاں تک کہا  گیا کہ اگر وہ چاہے تو اقرار الحسن اور ٹیم سرعام کے خلاف ہتک عزت کی کاروائی بھی کر سکتے ہیں یعنی وہ صاحب جنہوں نے خود اعتراف کیا کہ جی بالکل یہ ویڈیوزٹھیک  ہیں اور میں نے بچیوں کا جنسی استحصال کیا ہے اور جنہوں نے شرمندگی اور شرمساری کا اظہار کرتے ہوئے خود استعفی دیسے اس ملک کی عدالت نے باعزت بری کر دیا 

تو اسلامییہ یونیورسٹی کا جو سکینڈل ہے وہ بھی کچھ اس طرح سے ہی اختتام پذیر ہوگا کیونکہ یہ سکینڈل کوئی غیرت مندی میں شروع نہیں کیا گیا پولیس کو اچانک سے کہیں سے کوئی جوش یا جذبے کا انجیکشن نہیں لگ گیا طارق بشیر چیمہ صاحب جو کہ وفاقی وزیر ہیں انہوں نے تحریک دی انہوں نے حکم دیا کہ ان کے بیٹے کی ویڈیوز کو منظرعام پر آنے سے بچایا جائے اور الٹیمیٹ یہ سارا معاملہ شروع ہوا میں جانتا ہوں اس معاملے میں مجھے بھی بعد میں شاید قانونی کاروائیوں کا سامنا کرنا پڑے گا لیکن حق اور سچ میں نے اپ کے سامنے رکھ دیا ہے

ااندازہ اس بات سے لگا لیجئے کہ جب کل کورٹ میں پیش کیا گیا میجر ریٹائرڈ اعجاز شاہ صاحب کو تو ویڈیوز کا کوئی ذکر نہیں کیا گیا عدالت نے اپنے حکم نامے میں بھی یہ لکھا کہ جب مجھ سے ریمانڈ لیا گیا تھا تب تو یہ کہا گیا تھا کہ ہم نے ان سے مزید ویڈیوز برامد کرنی ہیں اب اپ یہ کہہ رہے ہیں کہ جی ہم نے ویڈیوز تو برامد کرنی ہی نہیں تھی آئس  کا معاملہ تھا لہذا اپ انہیں جوڈیشل کریں - پولیس نے خود جوڈیشل کروایا گزشتہ روز چیف سیکیورٹی افیسر کو

اپ سوچیے ورنہ پولیس کی کوشش ہوتی ہے کہ زیادہ ریمانڈ لیا جائے لیکن پولیس نے ایسا نہیں کیا تو اس کا مطلب ہے کہ ویڈیوز کا معاملہ اب ڈبے میں بند کیا جا رہا ہے شاید جو مطلوبہ نتائج تھے وہ حاصل کر لیے گئے یا پولیس کو یہ لگتا ہے کہ جو طارق چیمہ صاحب کے صاحبزادے ہیں ان کی تمام تر ویڈیوز ان کے قبضے میں آگئی ہیں ان کو ڈلیٹ کر دیا جائے گا یا کر دیا گیا ہے لہذا اب یہ آئس کا معاملہ ڈال کے اس معاملے کو بھی گول کر دیا جائے گا اس ملک کی بیٹیوں کی عزتیں شاید اسی طرح سے اعجاز شاہ  جیسے  اور ولی داد چیمہ جیسے لوگوں کے ہاتھوں میں برباد ہوتی رہے گی جب تک کہ اس ملک کا قانون جب تک کہ اس ملک کا انصاف صحیح معنوں میں محافظ نہیں بن جاتا اس ملک کی بیٹیوں اس ملک کی بچیوں اس ملک کی بہنوں کی عزتوں کا ورنہ اسی طرح سے معاملات چلتے رہیں گے دو تین دن کے لیے خبر آئے گی ہم جیسے صحافی گلا پھاڑ پھاڑ کے ہمارا گلا رندھ  جائے گا سوشل میڈیا پر اپ اس طرح کی خبریں دیکھیں گے تصویریں آئیں گی ویڈیوز آئیں گی ہیڈ لائنز چلیں گی مختلف چینلز کے اوپر اور پھر ہم ایک نئی خبر کا  ایک نئے اسکینڈل کا انتظار کرنے لگ جائیں گے 

ایک تبصرہ شائع کریں

0 تبصرے
* Please Don't Spam Here. All the Comments are Reviewed by Admin.