Type Here to Get Search Results !

khwaja haidar ali aatish | Khwaja Haider Ali Aatish biography

khwaja haidar ali aatish

khwaja haidar ali aatish | Khwaja Haider Ali Aatish biography 

خواجہ حیدر علی آتش

(khwaja haidar ali aatish,haider ali aatish) ( (1777–1846) اردو شاعر تھے۔ اردو ادب کے لیجنڈز میں سے ایک ہیں۔وہ اور امام بخش ناسخ ہم عصر شاعر تھے جن کی دشمنی بھی مشہور ہے۔ دونوں کے سینکڑوں شاگرد تھے۔ لکھنؤ میں اردو شاعری کے لئے آتش اور ناسخ کا دور سنہری دور تھا۔ آتش زیادہ تر اپنی غزلوں اور اپنے حیرت انگیز اور مختلف انداز کے اشعار کے لئے مشہور ہیں۔کہا جاتا ہے کہ ان کا کنبہ دہلی سے لکھنؤ منتقل ہوا ہے۔ انہوں نے بغیر کسی ملازمت اور ریاستی سرپرستی کے آزاد زندگی بسر کی۔ انہوں نے اپنی شاعری کے کلیدی نقطہ نظر کے طور پر نہ تو خود ہمدردی کی بات قبول کی اور نہ ہی اس کو اپنایا ان کی غزلیں ان کے چیلینجنگ لہجے کو ثابت کرتی ہیں جس کی وجہ سے وہ جاگیردارانہ دور میں احتجاجی شاعری کے سب سے بڑے محرک تھے

یہ بھی کہا جاتا ہے کہ آتش کا تعلق فیض آباد سے تھا ان کے والد بچپن کے اوائل میں ہی فوت ہوگئے تھے لیکن ان کی شاعری کےانداز نے آتش کو نواب محمد تقی خان کے دربار میں آسانی سے رسائی فراہم کی جو انہیں لکھنؤ لے گئے۔ لکھنؤ میں وہ لکھنؤ کے اسکول کے ایک اہم شاعر مشفی کے شاگرد بن گئے۔ ناسخ کی موت کے فورا بعد آتش نے شاعری لکھنا چھوڑ دی۔ کچھ نقاد ان کو میر اور غالب کے بعد کا درجہ بھی دیتے ہیں۔

حیدر علی آتش کی شاعری

اے صنم جس نے تجھے چاند سی صورت دی ہے

اسی اللہ نے مجھ کو بھی محبت دی ہے

تیغ بے آب ہے نے بازوئے قاتل کمزور

کچھ گراں جانی ہے کچھ موت نے فرصت دی ہے

اس قدر کس کے لیے یہ جنگ و جدل اے گردوں

نہ نشاں مجھ کو دیا ہے نہ تو نوبت دی ہے

سانپ کے کاٹے کی لہریں ہیں شب و روز آتیں

کاکل یار کے سودے نے اذیت دی ہے

آئی اکسیر غنی دل نہیں رکھتی ایسا

خاکساری نہیں دی ہے مجھے دولت دی ہے

شمع کا اپنے فتیلہ نہیں کس رات جلا

عمل حب کی بہت ہم نے بھی دعوت دی ہے

جسم کو زیر زمیں بھی وہی پہونچا دے گا

روح کو جس نے فلک سیر کی طاقت دی ہے

فرقت یار میں رو رو کے بسر کرتا ہوں

زندگانی مجھے کیا دی ہے مصیبت دی ہے

یاد محبوب فراموش نہ ہووے اے دل

حسن نیت نے مجھے عشق سے نعمت دی ہے

گوش پیدا کیے سننے کو ترا ذکر جمال

دیکھنے کو ترے، آنکھوں میں بصارت دی ہے

لطف دل بستگیٔ عاشق شیدا کو نہ پوچھ

دو جہاں سے اس اسیری نے فراغت دی ہے

کمر یار کے مضمون کو باندھو آتشؔ

زلف خوباں سی رسا تم کو طبیعت دی ہے

 

کوئی عشق میں مجھ سے افزوں نہ نکلا

کبھی سامنے ہو کے مجنوں نہ نکلا

بڑا شور سنتے تھے پہلو میں دل کا

جو چیرا تو اک قطرۂ خوں نہ نکلا

بجا کہتے آئے ہیں ہیچ اس کو شاعر

کمر کا کوئی ہم سے مضموں نہ نکلا

ہوا کون سا روز روشن نہ کالا

کب افسانۂ زلف شبگوں نہ نکلا

پہنچتا اسے مصرع تازہ و تر

قد یار سا سرو موزوں نہ نکلا

رہا سال ہا سال جنگل میں آتشؔ

مرے سامنے بید مجنوں نہ نکلا

 

دوست دشمن نے کئے قتل کے ساماں کیا کیا

جان مشتاق کے پیدا ہوئے خواہاں کیا کیا

آفتیں ڈھاتی ہے وہ نرگس فتاں کیا کیا

داغ دیتی ہے مجھے گردش دوراں کیا کیا

پھر سکی میرے گلے پر نہ چھری ہے ظالم

ورنہ گردوں سے ہوئے کار نمایاں کیا کیا

حسن میں پہلوئے خورشید مگر دابے گا

دور کھنچتا ہے ہمارا مہ تاباں کیا کیا

روئے دلبر کی صفا سے تھا بڑا ہی دعویٰ

سامنے ہو کے ہوا آئنہ حیراں کیا کیا

آنکھیں گیسو کے تصور میں رہا کرتی ہیں بند

لطف دکھلاتا ہے یہ خواب پریشاں کیا کیا

گردش چشم دکھاتا ہے کبھی گردش جام

میری تدبیر میں پھرتا ہے یہ دوراں کیا کیا

چشم بینا بھی عطا کی دل آگہ بھی دیا

میرے اللہ نے مجھ پر کئے احساں کیا کیا

دوست نے جب نہ دم ذبح سسکتا چھوڑا

میرے دشمن ہوئے ہنس ہنس کے پشیماں کیا کیا

گردش نرگس فتاں نے تو دیوانہ کیا

دیکھو جھنکوائے کنوئیں چاہ زنخداں کیا کیا

جل گیا آگ میں آپ اپنے میں مانند چنار

پیستے رہ گئے دانت ارہ و سوہاں کیا کیا

کچھ کہے کوئی میں منہ دیکھ کے رہ جاتا ہوں

کم دماغی نے کیا ہے مجھے حیراں کیا کیا

گرم ہرگز نہ ہوا پہلوئے خالی بے یار

یاد آوے گی مجھے فصل زمستاں کیا کیا

کوئی مردود خلائق نہیں مجھ سا آتشؔ

کیا کہوں کہتے ہیں ہندو و مسلماں کیا کیا

مزید شعراء کرام


 

ایک تبصرہ شائع کریں

0 تبصرے
* Please Don't Spam Here. All the Comments are Reviewed by Admin.